حمید الحق چودھری کا تعلق پاکستان کی اس نسل سے تھا جس نے قیام پاکستان کی تحریک میں تن من دھن سے شرکت کی۔ ان کا شمار مشرقی پاکستان کے ان چیدہ چیدہ رہنماؤں میں کیا جاتا ہے جو دل و دماغ سے متحدہ پاکستان کے ہمنوا اور حامی تھے۔ 50ء کی دہائی میں انہیں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھر پور جدو جہد کی لیکن علیحدگی پسند تحریک سے گریزاں ؟ رہے۔ پاکستان سے محبت کی وجہ سے انہیں کٹھن نتائج بھی بھگتنا پڑے، ڈھا کہ میں ان کی تمام جائیداد بشمول اخبار پاکستان ابزرور کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا ۔ 80ء کی دہائی میں وہ اپنی جائیداد کا کچھ ہی حصہ واگزار کرانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی یادداشتیں ہماری معاصر تاریخ کا ایک عمدہ شخصی و سیاسی بیانیہ ہیں۔ چودھری صاحب کا انگریزی طرز تحریر سادہ اور رواں ہے۔ ان یاد داشتوں کے مترجم منصور امین نے کتاب کے ترجمہ کا فریضہ دیانتداری اور زبان و بیان کے سارے سلیقے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مکمل کیا ہے۔ خالد ہمایوں حمید الحق چوہدری کی یادداشتوں کا ترجمہ گجرات سے تعلق رکھنے والی ایک کتاب دوست شخصیت منصور امین نے سرانجام دیا ہے۔ ترجمہ اگر چہ ایک دقت طلب امر ہے کیونکہ مترجم کو بیک وقت دو زبانوں کی لفظی وثقافتی نزاکتوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنا ہوتا ہے، مگر مترجم نے سلیس اور رواں دواں زباں کو سلیقہ سے برتتے ہوئے انگریزی متن کو کامیابی سے اُردو متن کی صورت میں ڈھالتے ہوئے آج کے قاری کو ایک گزرے ہوئے زمانہ سے آشنائی دینے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ منصور امین قبل ازیں سانحہ 1971ء پر بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد اللہ خان کی انگریزی کتاب East Pakistan to Bangladesh کو بھی اُردو زبان میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کے نام سے پیش کر چکے ہیں۔ 2003ء میں انھوں نے معروف دانشور و سیاسی مفکر اقبال احمد کے مضامین، مقالوں و کالموں کو تین جلدوں میں Eqbal Ahmad: Essays کی صورت میں مرتب کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اقبال احمد کی تحریروں کو کتابی صورت میں مدون کرنے کی یہ پہلی کاوش تھی ۔ وہ اس وقت تراجم کے کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہیں۔ بسلسلہ روزگار وہ یونیورسٹی آف گجرات سے وابستہ ہیں۔ اداره
Maulana Muhammad Ali Johar - مولانا محمد علی جوہر یورپ کے سفر مولانا محمد علی جوہر کا یورپ کے سفر ان کے یورپ کے ان اسفار کا احوال ہے جو انھوں نے نوجوانی سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک مختلف اوقات میں کیے۔ ان اسفار کا احوال وہ خطوط کی صورت میں اپنے ہفت روزہ اخبارات ” ہمدرد اور کامریڈ کے لیے تحریر کرتے رہے۔ ان خطوط کا اسلوب عمومی اور عوامی ہے کیونکہ ان کا مقصد اخبار کے قارئین کو گول میز کانفرنس میں ہونے والی مباحث اور جد و جہد آزادی کے لیے کی گئی کوششوں سے باخبر رکھنا تھا۔ ان خطوط نما رو دادوں میں رپورتاژ کی سی ادبی چاشنی اور رنگینی در آئی ہے، پروفیسر محمد سرور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں انھیں رسائل کی فائلوں سے تلاش کر کے خوبصورتی سے مرتب کیا ہے۔ اس سفر نامے میں جہاں ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے مختلف مراحل کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے وہاں مولانا محمد علی جوہر کی اپنے وطن کے لیے محبت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور تحریک خلافت سے لے کر تحریک پاکستان تک مسلسل جد و جہد کی۔ اُن کی اولین کوشش یہ تھی کہ بر صغیر پاک و ہند کے تمام باسی بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ ونسل انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کریں، اس کے لیے انھوں نے اپنے اخبارات ” کا مرید اور ہمدرد کے ذریعے جدو جہد کی اور جب انھیں معلوم ہو گیا کہ ہندو مسلمانوں کے حوالے سے تعصب کا شکار ہیں تو انھوں نے تحریک پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ سفر نامہ اپنے عمدہ اسلوب ، جاندار نثر اور یورپ کی زندگی کے مختلف مظاہر اور بیش قدر معلومات کی وجہ سے قارئین کے لیے ایک عمدہ تحفہ ثابت ہوگا۔ اس میں تاریخ، تہذیب، ثقافت، سیاست اور ادب یکجا ہو گئے ہیں۔
Dr. Hammad Ahmed Bhatti is a physician by profession, an ex-civil servant by compassion, and a poet by passion settled in the UAE for more than two decades. Raised in the cultural heartland of Pakistan, he grew up surrounded by the aura of books, nature, spiritualism, and meaningful friendships that shaped his reflective soul. Having lived and traveled across diverse landscapes around the globe his work captures fleeting moments with clarity, grace, and emotional depth. With a career spanning in the different specialties of medicine, public service, and literary expression, Dr. Bhatti brings a rare blend of sensitivity, intellect, and introspection to his multilingual prose and poetic writings. It is an intimate collection of poems rooted in his personal reflection and inspired by nature, nostalgia, love, and journey. Each poem is a pressed petal from the garden of time: subtle, fragrant, and everlasting. Potpourri: Petals of the Past is his first anthology of English poems, although 6th in toto after his previously published books in Urdu and Punjabi languages. Safdar Hussain Al-Hamd Publications
تعارف ہمارے کلاسیکی ادب کے مطالعات کا دامن وسیع کرنے میں جن لوگوں کی تحریروں نے سب سے اہم حصہ لیا ان میں شیخ محمد اکرام نمایاں ہیں۔ آج تک ان کی کتابیں حوالے کے طور پر کام آتی ہیں۔ غالب کے بارے میں اُن کی تحریروں سے استفادہ کرنا گویا کہ غالبیات کی تاریخ کے ایک باب کا مطالعہ کرنا ہے۔ غالب کی شاعری کو اہل ذوق نے خود اپنی شعر فہمی کی آزمائش کا ذریعہ سمجھا ہے۔ اُن کے کلام کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے اور اشعار کی نئی نئی جہتوں کی جستجو کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ شیخ محمد اکرام ، غالب کے طرفداروں میں حالی کے بعد کے دور کے سب سے اہم نقاد ہیں۔ اُن کے نزدیک نقاد کا کام احتساب نہیں بلکہ ترجمانی ہے۔ اور اسی نقطہ نظر سے غالب کے کلام کا انھوں نے مطالعہ کیا اور اس کے نتائج کو ایسی متوازن بحث کے بعد شگفتہ عالمانہ اسلوب میں پیش کیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی وہ ان لوگوں میں تھے جنھوں نے مغرب میں تعلیم پائی تھی مگر اپنے دور کے مغرب سے مرعوب دانشوروں سے بالکل الگ ایک آزادانہ ذہنی رویہ رکھتے تھے۔ شیخ محمد اکرام نے غالب کے عہد ان کی زندگی و شخصیت اُن کے ادبی ارتقا کے ساتھ اُن کی نظم و نثر پر اظہار خیال کرتے ہوئے اُردو اور دوسری زبانوں کے چند اہم شاعروں سے ان کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب غالبیات کے خزانے کا اس اعتبار سے ایک نہایت جامع اور مستند حصہ ہے۔ بعض دوسری اہم کتابوں کی طرح یہ بھی عام طور سے اب دستیاب نہیں ۔ اس لیے ہم نے اس کی بازیافت کی ۔ ہم اہل علم کے سامنے اسے ایک بار پھر پیش کرتے ہیں۔
افکار غالب غالب اصطلاحی معنوں میں فلسفی تو نہیں ، مگر انہیں فلسفیانہ مسائل سے گہری دلچسپی ہے وہ ان مسائل کو ایسے عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان مسائل کی پیچیدگی اور گہرائی کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا لیکن اگر اُن کے اشعار کی نہیں کھولی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ کے پردے میں ایک جہانِ معنی چھپا ہوا تھا۔ خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دو ہی شرحیں سامنے آئی ہیں اور دونوں متفرق اشعار کی جزوی شرحیں ہیں۔ پہلے ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب فلسفہ کلام غالب سامنے آئی تھی جس میں غالب کے ان اشعار کی تفسیر و تشریح پیش کی گئی تھی جن میں ایسے مضامین نظم ہوئے ہیں جن سے فلسفہ کو دلچسپی ہے۔ لیکن شوکت سبزواری بھی اصطلاحی معنوں میں فلسفی نہیں تھے ان کی اس کوشش کو ایک عام شارح کی فلسفیانہ کاوش ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری کتاب افکار غالب“ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی لکھی ہوئی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم خود فلسفی تھے ۔ مغرب و مشرق کے فلسفوں پر اُن کی گہری نظر تھی ، وہ اسلامیات کے بھی دیدہ ور عالم تھے۔ مثنوی مولانا روم کے علاوہ مسلمان فلاسفہ کے افکار سے واقف تھے اور انہیں وہ مواضع بھی معلوم تھے جہاں مغرب و مشرق کے فلسفے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں یا بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح مولانا روم اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار کا فلسفیانہ جائزہ لیا، اسی انداز سے غالب کے فارسی اور اُردو کلام سے وہ اشعار انتخاب کیے جن میں فلسفیانہ مضامین باندھے گئے ہیں اور اُن کی تشریح ایسے فکر افروز انداز میں کی ہے کہ افکار غالب کی دقت ، لطافت اور فلسفیانہ قدر و قیمت روشن ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ یہ اگر چہ صرف منتخب اشعار کی شرح و تفسیر ہے مگر اسے پڑھ کر ہم پورے غالب کو سمجھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا انداز بیان اور اسلوب نگارش نہ صرف نہایت عالمانہ ہے، اس میں دل رُبائی کی آن بھی ہے، ایسا اسلوب بھی کم لکھنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ سید مظفر حسین برنی
ہمارے دور کے بیشتر شعراء مختلف محرکات کے تحت شعر گوئی شروع کر دیتے ہیں اور بعض وجوہ کی بنا پر چند ایک کو پذیرائی بھی مل جاتی ہے لیکن جلد ہی اپنے آپ کو دہرانا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ مطالعہ ادب سے بے تعلق ہوتے ہیں۔ عباس تابش البته استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو شاعری کے کلاسیکی اور جدید سرمائے پر اُن کی گہری نظر ہے۔ اس وسعتِ مطالعہ کی وجہ سے فنِ شعر کے تمام اسرار و رموز ان پر روشن ہیں۔ وہ خیالات کو ذاتی طور پر محسوس کر کے شعر کا جامہ پہناتے ہیں اس لیے ان کی شاعری میں قدیم یا جدید شعراء کے خیالات کی تکرار کہیں موجود نہیں ان کے ہاں انفرادیت اور تازه کاری جگہ جگہ موجود ہے چنانچہ ان کا کلام گہرے تاثر کا حامل ہے اور گزشتہ چند دہائیوں سے جو شاعری تخلیق ہو رہی ہے اس میں عباس تابش کا مقام بہت بلند ہے۔ خواجہ محمد زکریا
راشد کا رجحان نہ انفرادیت کی طرف ہے نہ اجتماعیت کی طرف۔ انفرادیت کی خوفناک تنہائیاں شاعر کو پسند نہیں۔ اور اجتماعیت جو فرد ہی کو بلندی کے انتہائی نقطے پر پہنچانے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ اس میں اُسے بے شمار رخنے اور پیچ نظر آتے ہیں۔ پھر وہ کون سا نظام زندگی ہے جس میں یہ زہر موجود نہ ہو۔ زندگی کے اس دوراہے پر پہنچ کر اس نے بشریت کے دامن میں پناہ لی ہے۔ کرشن چندر راشد ہمارے جدید شاعروں میں یقینا ایک اہم نام ہیں۔ انھوں نے مغربی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ مغرب کی کلاسیکی شاعری کے ساتھ ساتھ جدید شاعری سے بھی انھیں بہت لگاؤ تھا۔ شاعری کی جدید تحریکیں خواہ وہ لاطینی امریکہ میں ہوں یا افریقہ میں یا کہیں اور راشد کی نظر سے پوشیدہ نہیں تھیں ۔ انھوں نے ان تحریکوں سے استفادہ کیا لیکن ایشیا کے مسائل کو مد نظر رکھ کر موضوعات منتخب کیے۔ ان کے ہاں فکری شاعری زیادہ ہے جس میں ہم عصر سیاسی اور ادبی تحریکوں سے انپیریشن حاصل کی گئی ہے۔ مغربی ادب کو براہ راست پڑھ کر اور اس سے اثر پذیر ہو کر، اُردو شاعری میں متعدد تازہ تجربات کو پیش کرنے اور آنے والے شعرا کی ایک پوری نسل کو متاثر کرنے کی وجہ سے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا زبان کی بے مثال خوب صورتی ، پیکروں کی تجریدی پیچیدگی اور کلام کی روانی اپنا جواب آپ ہیں لیکن یہ تو ن م راشد کی عام خصوصیات ہیں۔ ان کی شاید ہی کوئی نظم زبان کی غیر معمولی چمک دمک اور لفظوں کے جرات مندانہ استعمال کی صفت سے خالی ہو۔ اُن کی یہ صفت عمر کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی شمس الرحمن فاروقی غالب اور اقبال کے بعد میرے لیے راشد وہ تیسرے شاعر ہیں جس کی نظموں میں معنی کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ یہ شاعری اپنی تفہیم اور تعبیر کے کسی بھی مرحلے میں ہمارے لیے محض ماضی کی چیز نہیں بنے پاتی ، اپنے تمام دروازے کبھی بند نہیں کرتی۔ کسی نہ کسی تجربے، طرز احساس اور تصور کے واسطے سے یہ شاعری ہمیں از سر نو متوجہ کر لیتی ہے اور ہماری تخلیقی احتیاج کی آسودگی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی
فلسفے کا نیا آہنگ Philosophy in a New Key سوسین لینگر کے نظریات بنیادی طور پر آرٹ ، زبان اور ذہن کے مابین تعلق اور انسانی فہم اور تجربے کی تشکیل میں علامتوں کے کردار کی وضاحت کرتے ہیں ۔ اس نے بیان کیا کہ کس طرح آرٹ ، جو علامتی اظہار کی ایک شکل ہے، ہمیں انسانی جذبات کو سمجھنے اور پیش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آرٹ کا یہ کردار با لخصوص وہاں زیادہ واضح ہے جہاں جذبات کو بسہولت الفاظ کی شکل نہیں دی جاسکتی۔ اس نے بجائے خود احساس کی ماہیت پر بھی کام کیا اور بتایا کہ یہ بلند تر وقوفی عمل کی بنیاد اور شعور کا بنیادی پہلو ہے۔ امریکی فلسفی، مصنفہ اور معلمہ سوسین لینگر (1985 - 1895ء) نے ذہن پر آرٹ کے اثرات پر نظریات پیش کیے۔ یہ ان اولین امریکی خواتین میں سے ہیں جنھوں نے فلسفہ کی درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ ان کی ایک نہایت مقبول ہونے والی کتاب Philosophy in a New Key کے نام سے 1942 ء میں چھپی ۔ مختلف مضامین کے طالب علم اس کتاب سے دہائیوں استفادہ کرتے رہے۔ یه کتاب اس نے جرمن فلسفی کیسیر کے علامتیت کے فلسفے سے متاثر ہو کر لکھی۔ کیسیر رسمجھتا ہے کہ مذہب، سائنس، آرٹ اور اسطورہ انسانی فکر کی مختلف لیکن باہم مساوی شاخیں ہیں۔ اپنی مذکورہ بالا کتاب میں سوسین لینگر نے اورا کی علامتیت (Presentational Symbol ) کا ایک اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انسان کو دوسرے جانوروں سے تمیز کرنے والی اہلیت علامت سازی اور سلامت کے ساتھ معنی کی وابستگی ہے۔ اس کتاب میں وہ آرٹ ، اس کی تخلیق کے پس منظر میں کارفرما عوامل اور انسانی شعور کی تشکیل میں اس کی وقعت پر کام کے لیے منضبط بنیاد فراہم کرنے میں کوشاں ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ زبان اظہار کی شکلوں میں سے صرف ایک ہے۔ اس کے نظریہ علامتیت میں انسانی تجربے کو معنی دینے میں آرٹ کا وہی مرتبہ ہے جو سائنس کو دیا گیا ہے۔ انسان پیش آمدہ تجربات اور مظاہر کو موسیقی ، آرٹ اور اسطورہ سازی جیسے ادرا کی علامتوں کی مدد سے معنی دیتا ہے۔ علامتوں کی طاقت اور انسانی تجربے اور احساس کے ساتھ ان کے تعلق پر لینگر کی گرفت کے باعث آج بھی جمالیات ، فلسفہ ذہن اور اشاروں اور علامتوں کے مطالعے (Semiotics) میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی اظہاری وقوف ( Cognitive) میں دلچسپی رکھنے والے احساس اور علامتی منطق کے درمیان تعلق پر اس کی تحریروں کو وقعت دیتے ہیں۔ محمد ارشد رازی
ذکر غالب مرزا غالب کے مستند حالات زندگی ) ارباب نظر کے ایک چھوٹے سے حلقے میں تو غالب اپنی زندگی ہی میں مقبول ہو چکے تھے لیکن جسے قبول عام کہتے ہیں وہ اُن کو ایک مدت تک حاصل نہیں ہوا۔ اُن کے کلام کی صحیح قدر لوگوں کو اُس وقت معلوم ہوئی ۔ جب مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اپنے ہم عصروں کے مذاق شعر کو نتها را، اور یادگار غالب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ اس نھرے ہوئے مذاق کی تسکین غالب کے کلام سے به خوبی ہو سکتی ہے۔ انگریزی دانوں میں غالب کا چرچا زیادہ تر عبد الرحمن بجنوری کے مقدمے اور دیوان غالب کے برلن ایڈیشن اور چغتائی ایڈیشن کی بدولت ہوا۔ پچھلی چوتھائی صدی میں علامہ محمد اقبال کی شہرت اور مقبولیت نے پچھلے شاعروں کے نقش کو اگر بنایا نہیں تو مدھم ضرور کر دیا۔ لیکن غالب کا نقش اگر تو اتنا گہرا اور روشن تھا کہ اس کی آب و تاب میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ غالب کی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ جتنی اچھی اور اونچے درجے کی کتابیں ان کی زندگی اور شاعری پر لکھی گئیں اتنی کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئیں ۔ حالی کی یادگار غالب سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ برابر جاری رہا۔ اس کی وہ کڑیاں جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ غلام رسول مہر کی غالب شیخ محمد اکرام کی معرکے کی تصنیف " غالب نامہ اور مالک رام کی ذکر غالب ہے جس کا نیا ایڈیشن آپ کے سامنے ہے۔ یہ اس تمام تحقیقات کا نچوڑ ہے جو اب تک غالب کی سیرت کے متعلق ہو چکی ہے اس کے علاوہ اس میں مالک رام صاحب نے نئے ماخذوں کو کھنگال کر نئی معلومات فراہم کی ہے جو کہیں اور نہیں ملتی۔ پہلا ایڈیشن بھی اس لحاظ سے کچھ کم امتیاز نہیں رکھتا تھا اور موجودہ ایڈیشن میں تو ایسے مفید اضافے ہوئے ہیں کہ اہل ذوق کی نظر میں کتاب کی قدروقیمت اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس پر آشوب زمانے میں بھی جو علم و ادب کی کساد بازاری کا دور ہے ذکر غالب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ سید عابد حسین
Showing 1-9 of 575 item(s)