Showing 1-9 of 571 item(s)
Ghalib Nama New

Ghalib Nama

Rs. 1,000.00 ID-00588

تعارف ہمارے کلاسیکی ادب کے مطالعات کا دامن وسیع کرنے میں جن لوگوں کی تحریروں نے سب سے اہم حصہ لیا ان میں شیخ محمد اکرام نمایاں ہیں۔ آج تک ان کی کتابیں حوالے کے طور پر کام آتی ہیں۔ غالب کے بارے میں اُن کی تحریروں سے استفادہ کرنا گویا کہ غالبیات کی تاریخ کے ایک باب کا مطالعہ کرنا ہے۔ غالب کی شاعری کو اہل ذوق نے خود اپنی شعر فہمی کی آزمائش کا ذریعہ سمجھا ہے۔ اُن کے کلام کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے اور اشعار کی نئی نئی جہتوں کی جستجو کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ شیخ محمد اکرام ، غالب کے طرفداروں میں حالی کے بعد کے دور کے سب سے اہم نقاد ہیں۔ اُن کے نزدیک نقاد کا کام احتساب نہیں بلکہ ترجمانی ہے۔ اور اسی نقطہ نظر سے غالب کے کلام کا انھوں نے مطالعہ کیا اور اس کے نتائج کو ایسی متوازن بحث کے بعد شگفتہ عالمانہ اسلوب میں پیش کیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی وہ ان لوگوں میں تھے جنھوں نے مغرب میں تعلیم پائی تھی مگر اپنے دور کے مغرب سے مرعوب دانشوروں سے بالکل الگ ایک آزادانہ ذہنی رویہ رکھتے تھے۔ شیخ محمد اکرام نے غالب کے عہد ان کی زندگی و شخصیت اُن کے ادبی ارتقا کے ساتھ اُن کی نظم و نثر پر اظہار خیال کرتے ہوئے اُردو اور دوسری زبانوں کے چند اہم شاعروں سے ان کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب غالبیات کے خزانے کا اس اعتبار سے ایک نہایت جامع اور مستند حصہ ہے۔ بعض دوسری اہم کتابوں کی طرح یہ بھی عام طور سے اب دستیاب نہیں ۔ اس لیے ہم نے اس کی بازیافت کی ۔ ہم اہل علم کے سامنے اسے ایک بار پھر پیش کرتے ہیں۔

Afikari Ghalib New

Afikari Ghalib

Rs. 1,200.00 ID-00587

افکار غالب غالب اصطلاحی معنوں میں فلسفی تو نہیں ، مگر انہیں فلسفیانہ مسائل سے گہری دلچسپی ہے وہ ان مسائل کو ایسے عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان مسائل کی پیچیدگی اور گہرائی کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا لیکن اگر اُن کے اشعار کی نہیں کھولی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ کے پردے میں ایک جہانِ معنی چھپا ہوا تھا۔ خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دو ہی شرحیں سامنے آئی ہیں اور دونوں متفرق اشعار کی جزوی شرحیں ہیں۔ پہلے ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب فلسفہ کلام غالب سامنے آئی تھی جس میں غالب کے ان اشعار کی تفسیر و تشریح پیش کی گئی تھی جن میں ایسے مضامین نظم ہوئے ہیں جن سے فلسفہ کو دلچسپی ہے۔ لیکن شوکت سبزواری بھی اصطلاحی معنوں میں فلسفی نہیں تھے ان کی اس کوشش کو ایک عام شارح کی فلسفیانہ کاوش ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری کتاب افکار غالب“ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی لکھی ہوئی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم خود فلسفی تھے ۔ مغرب و مشرق کے فلسفوں پر اُن کی گہری نظر تھی ، وہ اسلامیات کے بھی دیدہ ور عالم تھے۔ مثنوی مولانا روم کے علاوہ مسلمان فلاسفہ کے افکار سے واقف تھے اور انہیں وہ مواضع بھی معلوم تھے جہاں مغرب و مشرق کے فلسفے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں یا بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح مولانا روم اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار کا فلسفیانہ جائزہ لیا، اسی انداز سے غالب کے فارسی اور اُردو کلام سے وہ اشعار انتخاب کیے جن میں فلسفیانہ مضامین باندھے گئے ہیں اور اُن کی تشریح ایسے فکر افروز انداز میں کی ہے کہ افکار غالب کی دقت ، لطافت اور فلسفیانہ قدر و قیمت روشن ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ یہ اگر چہ صرف منتخب اشعار کی شرح و تفسیر ہے مگر اسے پڑھ کر ہم پورے غالب کو سمجھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا انداز بیان اور اسلوب نگارش نہ صرف نہایت عالمانہ ہے، اس میں دل رُبائی کی آن بھی ہے، ایسا اسلوب بھی کم لکھنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ سید مظفر حسین برنی

kulliyat ishaq abad New

kulliyat ishaq abad

Rs. 2,000.00 ID-00585

ہمارے دور کے بیشتر شعراء مختلف محرکات کے تحت شعر گوئی شروع کر دیتے ہیں اور بعض وجوہ کی بنا پر چند ایک کو پذیرائی بھی مل جاتی ہے لیکن جلد ہی اپنے آپ کو دہرانا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ مطالعہ ادب سے بے تعلق ہوتے ہیں۔ عباس تابش البته استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو شاعری کے کلاسیکی اور جدید سرمائے پر اُن کی گہری نظر ہے۔ اس وسعتِ مطالعہ کی وجہ سے فنِ شعر کے تمام اسرار و رموز ان پر روشن ہیں۔ وہ خیالات کو ذاتی طور پر محسوس کر کے شعر کا جامہ پہناتے ہیں اس لیے ان کی شاعری میں قدیم یا جدید شعراء کے خیالات کی تکرار کہیں موجود نہیں ان کے ہاں انفرادیت اور تازه کاری جگہ جگہ موجود ہے چنانچہ ان کا کلام گہرے تاثر کا حامل ہے اور گزشتہ چند دہائیوں سے جو شاعری تخلیق ہو رہی ہے اس میں عباس تابش کا مقام بہت بلند ہے۔ خواجہ محمد زکریا

Kuliyat Noon Meem Rashid New

Kuliyat Noon Meem Rashid

Rs. 1,500.00 ID-00584

راشد کا رجحان نہ انفرادیت کی طرف ہے نہ اجتماعیت کی طرف۔ انفرادیت کی خوفناک تنہائیاں شاعر کو پسند نہیں۔ اور اجتماعیت جو فرد ہی کو بلندی کے انتہائی نقطے پر پہنچانے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ اس میں اُسے بے شمار رخنے اور پیچ نظر آتے ہیں۔ پھر وہ کون سا نظام زندگی ہے جس میں یہ زہر موجود نہ ہو۔ زندگی کے اس دوراہے پر پہنچ کر اس نے بشریت کے دامن میں پناہ لی ہے۔ کرشن چندر راشد ہمارے جدید شاعروں میں یقینا ایک اہم نام ہیں۔ انھوں نے مغربی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ مغرب کی کلاسیکی شاعری کے ساتھ ساتھ جدید شاعری سے بھی انھیں بہت لگاؤ تھا۔ شاعری کی جدید تحریکیں خواہ وہ لاطینی امریکہ میں ہوں یا افریقہ میں یا کہیں اور راشد کی نظر سے پوشیدہ نہیں تھیں ۔ انھوں نے ان تحریکوں سے استفادہ کیا لیکن ایشیا کے مسائل کو مد نظر رکھ کر موضوعات منتخب کیے۔ ان کے ہاں فکری شاعری زیادہ ہے جس میں ہم عصر سیاسی اور ادبی تحریکوں سے انپیریشن حاصل کی گئی ہے۔ مغربی ادب کو براہ راست پڑھ کر اور اس سے اثر پذیر ہو کر، اُردو شاعری میں متعدد تازہ تجربات کو پیش کرنے اور آنے والے شعرا کی ایک پوری نسل کو متاثر کرنے کی وجہ سے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا زبان کی بے مثال خوب صورتی ، پیکروں کی تجریدی پیچیدگی اور کلام کی روانی اپنا جواب آپ ہیں لیکن یہ تو ن م راشد کی عام خصوصیات ہیں۔ ان کی شاید ہی کوئی نظم زبان کی غیر معمولی چمک دمک اور لفظوں کے جرات مندانہ استعمال کی صفت سے خالی ہو۔ اُن کی یہ صفت عمر کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی شمس الرحمن فاروقی غالب اور اقبال کے بعد میرے لیے راشد وہ تیسرے شاعر ہیں جس کی نظموں میں معنی کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ یہ شاعری اپنی تفہیم اور تعبیر کے کسی بھی مرحلے میں ہمارے لیے محض ماضی کی چیز نہیں بنے پاتی ، اپنے تمام دروازے کبھی بند نہیں کرتی۔ کسی نہ کسی تجربے، طرز احساس اور تصور کے واسطے سے یہ شاعری ہمیں از سر نو متوجہ کر لیتی ہے اور ہماری تخلیقی احتیاج کی آسودگی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی

Filsafe Ka Niya Ahang New

Filsafe Ka Niya Ahang

Rs. 1,000.00 ID-00583

فلسفے کا نیا آہنگ Philosophy in a New Key سوسین لینگر کے نظریات بنیادی طور پر آرٹ ، زبان اور ذہن کے مابین تعلق اور انسانی فہم اور تجربے کی تشکیل میں علامتوں کے کردار کی وضاحت کرتے ہیں ۔ اس نے بیان کیا کہ کس طرح آرٹ ، جو علامتی اظہار کی ایک شکل ہے، ہمیں انسانی جذبات کو سمجھنے اور پیش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آرٹ کا یہ کردار با لخصوص وہاں زیادہ واضح ہے جہاں جذبات کو بسہولت الفاظ کی شکل نہیں دی جاسکتی۔ اس نے بجائے خود احساس کی ماہیت پر بھی کام کیا اور بتایا کہ یہ بلند تر وقوفی عمل کی بنیاد اور شعور کا بنیادی پہلو ہے۔ امریکی فلسفی، مصنفہ اور معلمہ سوسین لینگر (1985 - 1895ء) نے ذہن پر آرٹ کے اثرات پر نظریات پیش کیے۔ یہ ان اولین امریکی خواتین میں سے ہیں جنھوں نے فلسفہ کی درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ ان کی ایک نہایت مقبول ہونے والی کتاب Philosophy in a New Key کے نام سے 1942 ء میں چھپی ۔ مختلف مضامین کے طالب علم اس کتاب سے دہائیوں استفادہ کرتے رہے۔ یه کتاب اس نے جرمن فلسفی کیسیر کے علامتیت کے فلسفے سے متاثر ہو کر لکھی۔ کیسیر رسمجھتا ہے کہ مذہب، سائنس، آرٹ اور اسطورہ انسانی فکر کی مختلف لیکن باہم مساوی شاخیں ہیں۔ اپنی مذکورہ بالا کتاب میں سوسین لینگر نے اورا کی علامتیت (Presentational Symbol ) کا ایک اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انسان کو دوسرے جانوروں سے تمیز کرنے والی اہلیت علامت سازی اور سلامت کے ساتھ معنی کی وابستگی ہے۔ اس کتاب میں وہ آرٹ ، اس کی تخلیق کے پس منظر میں کارفرما عوامل اور انسانی شعور کی تشکیل میں اس کی وقعت پر کام کے لیے منضبط بنیاد فراہم کرنے میں کوشاں ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ زبان اظہار کی شکلوں میں سے صرف ایک ہے۔ اس کے نظریہ علامتیت میں انسانی تجربے کو معنی دینے میں آرٹ کا وہی مرتبہ ہے جو سائنس کو دیا گیا ہے۔ انسان پیش آمدہ تجربات اور مظاہر کو موسیقی ، آرٹ اور اسطورہ سازی جیسے ادرا کی علامتوں کی مدد سے معنی دیتا ہے۔ علامتوں کی طاقت اور انسانی تجربے اور احساس کے ساتھ ان کے تعلق پر لینگر کی گرفت کے باعث آج بھی جمالیات ، فلسفہ ذہن اور اشاروں اور علامتوں کے مطالعے (Semiotics) میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی اظہاری وقوف ( Cognitive) میں دلچسپی رکھنے والے احساس اور علامتی منطق کے درمیان تعلق پر اس کی تحریروں کو وقعت دیتے ہیں۔ محمد ارشد رازی

Zikari Ghalb New

Zikari Ghalb

Rs. 700.00 ID-00582

ذکر غالب مرزا غالب کے مستند حالات زندگی ) ارباب نظر کے ایک چھوٹے سے حلقے میں تو غالب اپنی زندگی ہی میں مقبول ہو چکے تھے لیکن جسے قبول عام کہتے ہیں وہ اُن کو ایک مدت تک حاصل نہیں ہوا۔ اُن کے کلام کی صحیح قدر لوگوں کو اُس وقت معلوم ہوئی ۔ جب مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اپنے ہم عصروں کے مذاق شعر کو نتها را، اور یادگار غالب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ اس نھرے ہوئے مذاق کی تسکین غالب کے کلام سے به خوبی ہو سکتی ہے۔ انگریزی دانوں میں غالب کا چرچا زیادہ تر عبد الرحمن بجنوری کے مقدمے اور دیوان غالب کے برلن ایڈیشن اور چغتائی ایڈیشن کی بدولت ہوا۔ پچھلی چوتھائی صدی میں علامہ محمد اقبال کی شہرت اور مقبولیت نے پچھلے شاعروں کے نقش کو اگر بنایا نہیں تو مدھم ضرور کر دیا۔ لیکن غالب کا نقش اگر تو اتنا گہرا اور روشن تھا کہ اس کی آب و تاب میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ غالب کی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ جتنی اچھی اور اونچے درجے کی کتابیں ان کی زندگی اور شاعری پر لکھی گئیں اتنی کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئیں ۔ حالی کی یادگار غالب سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ برابر جاری رہا۔ اس کی وہ کڑیاں جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ غلام رسول مہر کی غالب شیخ محمد اکرام کی معرکے کی تصنیف " غالب نامہ اور مالک رام کی ذکر غالب ہے جس کا نیا ایڈیشن آپ کے سامنے ہے۔ یہ اس تمام تحقیقات کا نچوڑ ہے جو اب تک غالب کی سیرت کے متعلق ہو چکی ہے اس کے علاوہ اس میں مالک رام صاحب نے نئے ماخذوں کو کھنگال کر نئی معلومات فراہم کی ہے جو کہیں اور نہیں ملتی۔ پہلا ایڈیشن بھی اس لحاظ سے کچھ کم امتیاز نہیں رکھتا تھا اور موجودہ ایڈیشن میں تو ایسے مفید اضافے ہوئے ہیں کہ اہل ذوق کی نظر میں کتاب کی قدروقیمت اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس پر آشوب زمانے میں بھی جو علم و ادب کی کساد بازاری کا دور ہے ذکر غالب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ سید عابد حسین

Pathar Nahin hun Mein ( Khud Nosht ) Khawaja Muhammad Zakariya New

Pathar Nahin hun Mein ( Khud Nosht ) Khawaja Muhammad Zakariya

Rs. 2,000.00 ID-00581

زیر نظر خود نوشت سے چند اقتباسات مجموعی طور پر میری ذاتی زندگی خوشگوار رہی ہے ۔۔۔ ضرورت سے زیادہ مادی وسائل کی خواہش کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ کسی زمانے میں شہرت کا شوق تھا لیکن پھر اس سے بھی بے نیاز ہو گیا ۔۔۔ جتنی شہرت مل گئی وہی کافی ہے۔۔۔ خواہش ضرور ہے کہ بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں اور الحمد اللہ پوری ہو رہی ہیں ۔ کروفر کی زندگی پسند نہیں ہے بعض لحاظ سے میں بڑا خوش نصیب ہوں ۔ میں نے ایسا پیشہ اختیار کیا جو میرے مزاج کے عین مطابق ہے۔ مزید خوش نصیبی یہ کہ صحت عموماً اچھی رہی ہے۔۔۔ ترجیہات و تعصبات سے گریز کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔۔۔ میرے مزاج میں بہت سی خامیاں بھی ہیں مثلاً میں بہت غصیلا ہوں اور جب غصے میں آجاتا ہوں تو میری عقل رخصت ہو جاتی ہے اور جذبات غالب آجاتے ہیں۔۔۔ مجھے سرسری ملنے والے یاد نہیں رہتے اس وجہ سے بعض لوگ مجھے مغرور سمجھتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ بعض اوقات کسی کی آدھی بات سُن کر دامن صبر چھوٹ جاتا ہے اور میں جواب دینا شروع کر دیتا ہوں، لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں مثالیت پسندی کی طرف رجحان ہے اور انھی کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہوں جو خامیوں سے بہت حد تک مبرا ہوں ۔ اپنی ذاتی زندگی سے ہٹ کر دیکھتا ہوں تو بہت نا آسودگی ہوتی ہے کیونکہ دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ طویل عمر کے باعث میں نے متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔۔۔ میری یہ تحریریں کسی افادیت کی حامل ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ وقت بہت جلدی کر دے گا تاہم میں نغلط نہیں کہوں گا کہ جب میرے کسی کام کی پزیرائی ہوتی ہے تو خوشی ہوتی ہے۔۔۔

Azaad Hind Foji -  آزاد ہند فوج New

Azaad Hind Foji - آزاد ہند فوج

Rs. 800.00 ID-00580

آزاد ہند فوج: ایک ان کہی داستان یہ ان دنوں کی بات ہے جب پورا ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ہر طرف سے مایوسی کا عالم تھا، لوگ سوال کرتے تھے: کیا ؟ تھے: کیا کبھی آزادی کا سورج طلوع ہوگا ؟ تب کہیں دور ایک لاکار گونجی سبھاش چندر بوس کی للکار : ” تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا ! یہ آواز سیدھی نوجوانوں کے دل میں اُتری ، اور ایک نئی کہانی نے جنم لیا۔ بوس نے صرف تقریر نہیں کی ، وہ میدان میں اُترے۔ مولوی کا بھیس بدلا ، لمبی داڑھی رکھی اور گونگے بن گئے تا کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ پشاور سے افغانستان ، وہاں سے روس اور پھر جرمنی جا پہنچے۔ ہر راستے پر موت کھڑی تھی، مگر بوس کے ارادے فولاد کے تھے ۔ جرمنی میں آزاد ہند مرکز قائم کیا ، پھر جاپان پہنچے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ فوج ان سپاہیوں کی تھی جو کبھی انگریزوں کے لیے لڑتے تھے، اب اپنی سرزمین کے لیے لڑنے کو تیار تھے۔ برما کے جنگلوں میں ان کی وردیاں دھول میں آئیں ، بندوقوں کی نالیں چمکیں ، اور ہر سینے میں صرف ایک نعرہ دھڑکنے لگا : ” چلو دلی !“‘ اُن کا خواب تھا کہ وہ لال قلعے پر ہندستان کی آزادی کا پرچم لہرائیں گے، مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ برما کی لڑائیاں سخت تھیں، راشن کم ہتھیار محدود۔ جاپان کی شکست کے بعد یہ خواب بکھر نے لگا۔ جب آزاد ہند فوج کے سپاہی گرفتار ہوئے اور اُن پر غداری کے مقدمے چلے تو ہندوستان جاگ اٹھا۔ لوگ چیخ اٹھے : ” یہ غدار نہیں ، ہمارے ہیرو ہیں ؟ انگریز حکومت دہل گئی۔ فوج ، بحریہ، سب میں بغاوت کی آگ لگ گئی اور آخر کار وہ دن آیا جب انگریز خود اس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں آزاد ہند فوج کی یہ کہانی ختم ہو کر بھی زندہ رہی ایک ایسی داستان جو ہر دل میں بغاوت، قربانی اور آزادی کی جوت جلا گئی۔

Sabhash Chandar Bos - سبھاش چندر بوس New

Sabhash Chandar Bos - سبھاش چندر بوس

Rs. 800.00 ID-00579

سبھاش چندر بوس : آہنی عزم کا علمبردار سبھاش چندر بوس ایک ہر دل عزیز اور جری عوامی رہنما تھے۔ وہ دو مرتبہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل اعتدال پسند سیاست کے قائل تھے، جبکہ سبھاش چندر بوس خالص قوم پرست جذبات کے حامل تھے۔ جب کانگریس کے اعتدال پسند رہنما بغاوت کے شعلوں کو دبانے اور قابو میں رکھنے کے منصوبے بنا رہے تھے، سبھاش چندر بوس پوری جرات کے ساتھ جنگ آزادی کا بگل بجا رہے تھے۔ ادھر گاندھی جی امن ، عدم تشدد اور صبر و قناعت کے گیت الاپ رہے تھے، اُدھر سبھاش جی کا یقین تھا کہ اب قربانی کا وقت آگیا ہے، اپنا سب کچھ نچھاور کرو اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالو۔ وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی چھینے کے لیے میدان عمل میں اُتر آئے ۔ انہوں نے لاکار کر کہا: آؤ! میں تمہیں آزادی کا راستہ دکھاتا ہوں ۔ میرے پیچھے چلو !“ لیکن جب گاندھی جی نے یہ آواز سنی تو انہیں ہر طرف تشدد کی بو محسوس ہونے لگی۔ انہیں یوں لگا جیسے اُن کے اپنے سانسوں سے بھی تشدد کی صدا آ رہی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو گئے ۔ انہیں اپنی تمام عمر کی محنت اور اصولوں کی بنیاد پر قائم عمارت زمیں بوس ہوتی دکھائی دینے لگی۔ وہ متزلزل ہوئے اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے نازک ترین مرحلے پر انہوں نے نہ صرف قومی قوت کا غلط اندازہ لگایا بلکہ اپنے سیاسی وقار کو بچانے کی کوشش میں برصغیر کے بہترین مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیشکش شدت اختیار کر گئی ۔ بکری شیر پر غالب آگئی اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ سبھاش چندر بوس اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ برصغیر کی آزادی کے لیے ہندوستان کی سرزمین کو ترک کرنا ناگزیر ہے۔ کئی دنوں کے غور وفکر کے بعد وہ بھیس بدلے کابل کے راستے برلن (جرمنی) پہنچے، اور پھر وہاں سے جاپان کے شہر ٹوکیو روانہ ہو گئے ۔ ٹوکیو سے انہوں نے آزاد ہند فوج کی تشکیل کے لیے سنگا پور کا رخ کیا۔

Showing 1-9 of 571 item(s)