خواجہ محمد زکریا پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا پاکستان سے تعلق رکھنے و الے اردو زبان و ادبیات کے نامور فاضل، شاعر، محقق، نقاد، ماہرِ اقبالیات، اردو کے پروفیسر امریطس، صدر شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اورینٹل کالج لاہور کے سابق پرنسپل ہیں۔ حالات زندگی ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 23 مارچ 1940ء کو امرتسر میں چوک مان سنگھ کی ایک حویلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ غلام نبی تھا۔ ابتدائی تعلیم سے قبل تقسیم ہند کے فسادات شروع ہوئے تو ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا اور اسی شہر کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان 1954ء میں پاس کیا۔ بی اے آنرز گورنمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد ایم اے (اردو) کی ڈگری 1962ء میں جامعہ پنجاب سے اول درجہ میں حاصل کی۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اردو لیکچرار تعیناتی ہوئی، بعد ازاں جولائی 1963ء میں بطور لیکچرار اردو برائے غیر ملکی طلبہ شعبہ اردو (یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور) میں تقرر ہوا۔ 1967ء تک غیر ملکی طلبہ کو اردو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسیں پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ 1970ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ 1973ء میں ہندی میں ڈپلوما کیا۔ 1974ء میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران ہندی سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسوں کو بھی جز وقتی طور پر پڑھاتے رہے۔ 1977ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے۔ 1979ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اردو زبان کے پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ یہاں ایک سالہ تقرری کے دوران وہ صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز کے عہدے پر فائز رہے۔ 1980ء میں دوبارہ اورینٹل کالج لاہور آ گئے، یہاں 1984ء میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ڈین کلیہ علوم اسلامیہ و السنہ شرقیہ کے فرائض انجام دیے۔[1] پروفیسر ڈاکٹر ذو الفقار علی ملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد 1994ء میں کالج کے سب سے سینئر استاد کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ یکم اپریل 1995ء کو اردو زبان کی تدریس کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز (JOCV) کوما گانے جاپان چلے گئے۔ یکم اپریل 1999ء کو واپس پاکستان آئے اور دوبارہ اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ تقریباً 37 سال تدریسی خادمات انجام دینے کے بعد 22 مارچ 2000ء کو ریٹائر ہو گئے۔ دورانِ ملازمت اورینٹل کالج ، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی و ادبی کمیٹیوں کے ارکان بھی رہے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج میں تدریسی اور انتظامی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف میں بھی مشغول رہے۔ انھوں نے ایم اے کی سطح پر ایک سو سے زائد طلبہ کی تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد ریسرچ اسکالروں نے ان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کر چکے ہیں۔[2][3] جن میں ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اے بی اشرف قابلیِ ذکر ہیں۔ اعزازت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو ادبی و تعلیمی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا۔
خواجہ محمد زکریا پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا پاکستان سے تعلق رکھنے و الے اردو زبان و ادبیات کے نامور فاضل، شاعر، محقق، نقاد، ماہرِ اقبالیات، اردو کے پروفیسر امریطس، صدر شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اورینٹل کالج لاہور کے سابق پرنسپل ہیں۔ حالات زندگی ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 23 مارچ 1940ء کو امرتسر میں چوک مان سنگھ کی ایک حویلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ غلام نبی تھا۔ ابتدائی تعلیم سے قبل تقسیم ہند کے فسادات شروع ہوئے تو ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا اور اسی شہر کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان 1954ء میں پاس کیا۔ بی اے آنرز گورنمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد ایم اے (اردو) کی ڈگری 1962ء میں جامعہ پنجاب سے اول درجہ میں حاصل کی۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اردو لیکچرار تعیناتی ہوئی، بعد ازاں جولائی 1963ء میں بطور لیکچرار اردو برائے غیر ملکی طلبہ شعبہ اردو (یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور) میں تقرر ہوا۔ 1967ء تک غیر ملکی طلبہ کو اردو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسیں پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ 1970ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ 1973ء میں ہندی میں ڈپلوما کیا۔ 1974ء میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران ہندی سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسوں کو بھی جز وقتی طور پر پڑھاتے رہے۔ 1977ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے۔ 1979ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اردو زبان کے پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ یہاں ایک سالہ تقرری کے دوران وہ صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز کے عہدے پر فائز رہے۔ 1980ء میں دوبارہ اورینٹل کالج لاہور آ گئے، یہاں 1984ء میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ڈین کلیہ علوم اسلامیہ و السنہ شرقیہ کے فرائض انجام دیے۔[1] پروفیسر ڈاکٹر ذو الفقار علی ملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد 1994ء میں کالج کے سب سے سینئر استاد کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ یکم اپریل 1995ء کو اردو زبان کی تدریس کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز (JOCV) کوما گانے جاپان چلے گئے۔ یکم اپریل 1999ء کو واپس پاکستان آئے اور دوبارہ اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ تقریباً 37 سال تدریسی خادمات انجام دینے کے بعد 22 مارچ 2000ء کو ریٹائر ہو گئے۔ دورانِ ملازمت اورینٹل کالج ، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی و ادبی کمیٹیوں کے ارکان بھی رہے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج میں تدریسی اور انتظامی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف میں بھی مشغول رہے۔ انھوں نے ایم اے کی سطح پر ایک سو سے زائد طلبہ کی تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد ریسرچ اسکالروں نے ان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کر چکے ہیں۔[2][3] جن میں ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اے بی اشرف قابلیِ ذکر ہیں۔ اعزازت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو ادبی و تعلیمی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا۔
تاریخ فیروز شاہی ضیاء الدین برنی کی تصنیف ” تاریخ فیروز شاہی‘ 1266 ء سے 1358 ء تک برسر اقتدار رہنے والے سلاطین دہلی کی ایک اہم تاریخ ہے۔ برقی کا تعلق بلند شہر، اتر پردیش کے ساتھ تھا۔ اس کا پرانا نام برن تھا۔ برگی خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید اور امیر خسرو دہلوی کے قریبی دوست تھے۔ انھوں نے عمر کے آخری حصہ میں تاریخ فیروز شاہی کے علاوہ فتاوی جہانداری ، نعمت محمدی وغیرہ بھی تالیف کیں۔ تاریخ فیروز شاہی سلاطین دہلی کے مستند اور معتبر احوال پر مبنی ہے کیونکہ ضیاء الدین برنی کا خاندان امرائے دہلی میں سے تھا اور اُن کو امور مملکت کے بارے میں اُن معلومات تک بھی رسائی حاصل تھی جو بالعموم مورخین کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں۔ ان کے والد معید الملک ، چا ملک علاء الملک اور دادا سپہ سالار حسام الدین اپنے دور کے سلاطین کے درباروں سے اہم حیثیت میں وابستہ رہے۔ تاریخ فیروز شاہی ان آٹھ سلاطین کے احوال اور تاریخ پر مبنی ہے جن کے حالات کے ضیاء الدین برنی چشم دید گواہ تھے یا ان واقعات کی اطلاعات دیگر معتبر شخصیات کے ذریعے ان تک پہنچی تھیں ۔ اہم مؤرخین کی رائے کے مطابق یہ تاریخ دراصل منہاج سراج جوزجانی کی طبقات ناصری کا تسلسل ہے۔ ضیاء الدین برنی نے یہ تاریخ 758 ہجری میں جب ان کے عمر 74 سال تھی مکمل کی۔ یہ تاریخ فارسی میں لکھی گئی اور بعد ازاں اسے اردو زبان میں ایک سے زائد مورخین نے ترجمہ کیا ہے۔ زیر نظر ترجمہ ان میں سے سب سے زیادہ معتبر مانا جاتا ہے۔
Showing 10-18 of 539 item(s)