ذکر غالب مرزا غالب کے مستند حالات زندگی ) ارباب نظر کے ایک چھوٹے سے حلقے میں تو غالب اپنی زندگی ہی میں مقبول ہو چکے تھے لیکن جسے قبول عام کہتے ہیں وہ اُن کو ایک مدت تک حاصل نہیں ہوا۔ اُن کے کلام کی صحیح قدر لوگوں کو اُس وقت معلوم ہوئی ۔ جب مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اپنے ہم عصروں کے مذاق شعر کو نتها را، اور یادگار غالب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ اس نھرے ہوئے مذاق کی تسکین غالب کے کلام سے به خوبی ہو سکتی ہے۔ انگریزی دانوں میں غالب کا چرچا زیادہ تر عبد الرحمن بجنوری کے مقدمے اور دیوان غالب کے برلن ایڈیشن اور چغتائی ایڈیشن کی بدولت ہوا۔ پچھلی چوتھائی صدی میں علامہ محمد اقبال کی شہرت اور مقبولیت نے پچھلے شاعروں کے نقش کو اگر بنایا نہیں تو مدھم ضرور کر دیا۔ لیکن غالب کا نقش اگر تو اتنا گہرا اور روشن تھا کہ اس کی آب و تاب میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ غالب کی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ جتنی اچھی اور اونچے درجے کی کتابیں ان کی زندگی اور شاعری پر لکھی گئیں اتنی کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئیں ۔ حالی کی یادگار غالب سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ برابر جاری رہا۔ اس کی وہ کڑیاں جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ غلام رسول مہر کی غالب شیخ محمد اکرام کی معرکے کی تصنیف " غالب نامہ اور مالک رام کی ذکر غالب ہے جس کا نیا ایڈیشن آپ کے سامنے ہے۔ یہ اس تمام تحقیقات کا نچوڑ ہے جو اب تک غالب کی سیرت کے متعلق ہو چکی ہے اس کے علاوہ اس میں مالک رام صاحب نے نئے ماخذوں کو کھنگال کر نئی معلومات فراہم کی ہے جو کہیں اور نہیں ملتی۔ پہلا ایڈیشن بھی اس لحاظ سے کچھ کم امتیاز نہیں رکھتا تھا اور موجودہ ایڈیشن میں تو ایسے مفید اضافے ہوئے ہیں کہ اہل ذوق کی نظر میں کتاب کی قدروقیمت اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس پر آشوب زمانے میں بھی جو علم و ادب کی کساد بازاری کا دور ہے ذکر غالب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ سید عابد حسین
سبھاش چندر بوس : آہنی عزم کا علمبردار سبھاش چندر بوس ایک ہر دل عزیز اور جری عوامی رہنما تھے۔ وہ دو مرتبہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل اعتدال پسند سیاست کے قائل تھے، جبکہ سبھاش چندر بوس خالص قوم پرست جذبات کے حامل تھے۔ جب کانگریس کے اعتدال پسند رہنما بغاوت کے شعلوں کو دبانے اور قابو میں رکھنے کے منصوبے بنا رہے تھے، سبھاش چندر بوس پوری جرات کے ساتھ جنگ آزادی کا بگل بجا رہے تھے۔ ادھر گاندھی جی امن ، عدم تشدد اور صبر و قناعت کے گیت الاپ رہے تھے، اُدھر سبھاش جی کا یقین تھا کہ اب قربانی کا وقت آگیا ہے، اپنا سب کچھ نچھاور کرو اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالو۔ وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی چھینے کے لیے میدان عمل میں اُتر آئے ۔ انہوں نے لاکار کر کہا: آؤ! میں تمہیں آزادی کا راستہ دکھاتا ہوں ۔ میرے پیچھے چلو !“ لیکن جب گاندھی جی نے یہ آواز سنی تو انہیں ہر طرف تشدد کی بو محسوس ہونے لگی۔ انہیں یوں لگا جیسے اُن کے اپنے سانسوں سے بھی تشدد کی صدا آ رہی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو گئے ۔ انہیں اپنی تمام عمر کی محنت اور اصولوں کی بنیاد پر قائم عمارت زمیں بوس ہوتی دکھائی دینے لگی۔ وہ متزلزل ہوئے اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے نازک ترین مرحلے پر انہوں نے نہ صرف قومی قوت کا غلط اندازہ لگایا بلکہ اپنے سیاسی وقار کو بچانے کی کوشش میں برصغیر کے بہترین مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیشکش شدت اختیار کر گئی ۔ بکری شیر پر غالب آگئی اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ سبھاش چندر بوس اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ برصغیر کی آزادی کے لیے ہندوستان کی سرزمین کو ترک کرنا ناگزیر ہے۔ کئی دنوں کے غور وفکر کے بعد وہ بھیس بدلے کابل کے راستے برلن (جرمنی) پہنچے، اور پھر وہاں سے جاپان کے شہر ٹوکیو روانہ ہو گئے ۔ ٹوکیو سے انہوں نے آزاد ہند فوج کی تشکیل کے لیے سنگا پور کا رخ کیا۔
Darbare Dhurbar || دربارِ دُربار ریاست حیدرآباد دکن کی شاہی دربار کی حیرت انگیز داستان
تاریخ فیروز شاہی ضیاء الدین برنی کی تصنیف ” تاریخ فیروز شاہی‘ 1266 ء سے 1358 ء تک برسر اقتدار رہنے والے سلاطین دہلی کی ایک اہم تاریخ ہے۔ برقی کا تعلق بلند شہر، اتر پردیش کے ساتھ تھا۔ اس کا پرانا نام برن تھا۔ برگی خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید اور امیر خسرو دہلوی کے قریبی دوست تھے۔ انھوں نے عمر کے آخری حصہ میں تاریخ فیروز شاہی کے علاوہ فتاوی جہانداری ، نعمت محمدی وغیرہ بھی تالیف کیں۔ تاریخ فیروز شاہی سلاطین دہلی کے مستند اور معتبر احوال پر مبنی ہے کیونکہ ضیاء الدین برنی کا خاندان امرائے دہلی میں سے تھا اور اُن کو امور مملکت کے بارے میں اُن معلومات تک بھی رسائی حاصل تھی جو بالعموم مورخین کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں۔ ان کے والد معید الملک ، چا ملک علاء الملک اور دادا سپہ سالار حسام الدین اپنے دور کے سلاطین کے درباروں سے اہم حیثیت میں وابستہ رہے۔ تاریخ فیروز شاہی ان آٹھ سلاطین کے احوال اور تاریخ پر مبنی ہے جن کے حالات کے ضیاء الدین برنی چشم دید گواہ تھے یا ان واقعات کی اطلاعات دیگر معتبر شخصیات کے ذریعے ان تک پہنچی تھیں ۔ اہم مؤرخین کی رائے کے مطابق یہ تاریخ دراصل منہاج سراج جوزجانی کی طبقات ناصری کا تسلسل ہے۔ ضیاء الدین برنی نے یہ تاریخ 758 ہجری میں جب ان کے عمر 74 سال تھی مکمل کی۔ یہ تاریخ فارسی میں لکھی گئی اور بعد ازاں اسے اردو زبان میں ایک سے زائد مورخین نے ترجمہ کیا ہے۔ زیر نظر ترجمہ ان میں سے سب سے زیادہ معتبر مانا جاتا ہے۔
Showing 1-9 of 37 item(s)