تعارف ہمارے کلاسیکی ادب کے مطالعات کا دامن وسیع کرنے میں جن لوگوں کی تحریروں نے سب سے اہم حصہ لیا ان میں شیخ محمد اکرام نمایاں ہیں۔ آج تک ان کی کتابیں حوالے کے طور پر کام آتی ہیں۔ غالب کے بارے میں اُن کی تحریروں سے استفادہ کرنا گویا کہ غالبیات کی تاریخ کے ایک باب کا مطالعہ کرنا ہے۔ غالب کی شاعری کو اہل ذوق نے خود اپنی شعر فہمی کی آزمائش کا ذریعہ سمجھا ہے۔ اُن کے کلام کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے اور اشعار کی نئی نئی جہتوں کی جستجو کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ شیخ محمد اکرام ، غالب کے طرفداروں میں حالی کے بعد کے دور کے سب سے اہم نقاد ہیں۔ اُن کے نزدیک نقاد کا کام احتساب نہیں بلکہ ترجمانی ہے۔ اور اسی نقطہ نظر سے غالب کے کلام کا انھوں نے مطالعہ کیا اور اس کے نتائج کو ایسی متوازن بحث کے بعد شگفتہ عالمانہ اسلوب میں پیش کیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی وہ ان لوگوں میں تھے جنھوں نے مغرب میں تعلیم پائی تھی مگر اپنے دور کے مغرب سے مرعوب دانشوروں سے بالکل الگ ایک آزادانہ ذہنی رویہ رکھتے تھے۔ شیخ محمد اکرام نے غالب کے عہد ان کی زندگی و شخصیت اُن کے ادبی ارتقا کے ساتھ اُن کی نظم و نثر پر اظہار خیال کرتے ہوئے اُردو اور دوسری زبانوں کے چند اہم شاعروں سے ان کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب غالبیات کے خزانے کا اس اعتبار سے ایک نہایت جامع اور مستند حصہ ہے۔ بعض دوسری اہم کتابوں کی طرح یہ بھی عام طور سے اب دستیاب نہیں ۔ اس لیے ہم نے اس کی بازیافت کی ۔ ہم اہل علم کے سامنے اسے ایک بار پھر پیش کرتے ہیں۔
افکار غالب غالب اصطلاحی معنوں میں فلسفی تو نہیں ، مگر انہیں فلسفیانہ مسائل سے گہری دلچسپی ہے وہ ان مسائل کو ایسے عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان مسائل کی پیچیدگی اور گہرائی کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا لیکن اگر اُن کے اشعار کی نہیں کھولی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ کے پردے میں ایک جہانِ معنی چھپا ہوا تھا۔ خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دو ہی شرحیں سامنے آئی ہیں اور دونوں متفرق اشعار کی جزوی شرحیں ہیں۔ پہلے ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب فلسفہ کلام غالب سامنے آئی تھی جس میں غالب کے ان اشعار کی تفسیر و تشریح پیش کی گئی تھی جن میں ایسے مضامین نظم ہوئے ہیں جن سے فلسفہ کو دلچسپی ہے۔ لیکن شوکت سبزواری بھی اصطلاحی معنوں میں فلسفی نہیں تھے ان کی اس کوشش کو ایک عام شارح کی فلسفیانہ کاوش ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری کتاب افکار غالب“ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی لکھی ہوئی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم خود فلسفی تھے ۔ مغرب و مشرق کے فلسفوں پر اُن کی گہری نظر تھی ، وہ اسلامیات کے بھی دیدہ ور عالم تھے۔ مثنوی مولانا روم کے علاوہ مسلمان فلاسفہ کے افکار سے واقف تھے اور انہیں وہ مواضع بھی معلوم تھے جہاں مغرب و مشرق کے فلسفے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں یا بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح مولانا روم اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار کا فلسفیانہ جائزہ لیا، اسی انداز سے غالب کے فارسی اور اُردو کلام سے وہ اشعار انتخاب کیے جن میں فلسفیانہ مضامین باندھے گئے ہیں اور اُن کی تشریح ایسے فکر افروز انداز میں کی ہے کہ افکار غالب کی دقت ، لطافت اور فلسفیانہ قدر و قیمت روشن ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ یہ اگر چہ صرف منتخب اشعار کی شرح و تفسیر ہے مگر اسے پڑھ کر ہم پورے غالب کو سمجھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا انداز بیان اور اسلوب نگارش نہ صرف نہایت عالمانہ ہے، اس میں دل رُبائی کی آن بھی ہے، ایسا اسلوب بھی کم لکھنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ سید مظفر حسین برنی
فسانہ غالب غالب شناسی کی ایک معتبر دستاویز مالک رام کا شمار اُردو کے ان ممتاز محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے مرزا غالب کی شخصیت اور فن کو علمی و تحقیقی سطح پر گہرائی سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کی تصنیف فسانه غالب نہ صرف غالب کی زندگی کا آئینہ ہے بلکہ ان کے فکری، ادبی، اور شخصی پہلوؤں کو بھی علمی بصیرت کے ساتھ آشکار کرتی ہے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب، جنہیں اُردو شاعری کے عہد ساز شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جنہوں نے روایت اور جدت کے سنگم پر اپنی انفرادیت قائم کی۔ ان کی شاعری صرف لفظی بازیگری نہیں بلکہ فکر و احساس کی وہ گہرائی ہے جس میں قاری ڈوب جاتا ہے۔ ایسے ہی فسانہ غالب بھی غالب فہمی میں ایک عمیق اور بے بدل کاوش ہے۔ فسانہ غالب میں مالک رام نے مرزا غالب کی حیات، ان کی تصنیفات، خطوط، اور ان کے عہد کے سماجی و ادبی پس منظر پر جامع و مدلل مضامین قلمبند کیے ہیں۔ ان مضامین میں ولادت غالب“، ”استاد غالب" ، "غالب کی مہریں، مقدمہ پنشن کی عرضی، اور غالب کے محمد وحین جیسے موضوعات شامل ہیں، جو نہ صرف عام قارئین بلکہ غالب کے خصوصی مطالعے سے دلچسپی رکھنے والے محققین کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ مالک رام کے یہ مضامین غالب فہمی کی نئی راہیں کھولتے ہیں اور اُردو تحقیق و تنقید میں ایک بیش قیمت اضافہ ہیں ۔ فسانہ غالب کو بجا طور پر غالب شناسی کی ایک معتبر دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے، جو باذوق قارئین کے لیے ایک علمی نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
Jadeed Jagrafiya Punjab || جدید جغرافیہ پنجاب
Showing 1-9 of 33 item(s)